A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
1962ء ، مسعودرانا کا پہلا فلمی سال تھا جس میں انھوں نے دو فلموں میں چھ گیت گائے تھے۔۔!
مسعودرانا کا پہلا فلمی گیت ایک ترانہ تھا جو ایک کراچی ساختہ اردو فلم انقلاب کے لیے گایا گیا تھا جس کے بول تھے:
اس گیت یا ترانے میں اس وقت کے صدر ، آرمی چیف اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کی مدح و سرائی کی گئی تھی جنھیں اس وقت "پاکستانی قوم کا نجات دہندہ" بھی کہا جاتا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں 7 اکتوبر 1958ء سے مارشل لاء نافذ تھا اور جو 8 جون 1962ء کو ختم کیا گیا تھا۔ جنرل ایوب خان ، پاکستان کے پہلے مسلمان آرمی چیف تھے۔ ان سے قبل جو دو آرمی چیفس تھے وہ انگریز اور غیر مسلم تھے اور شاید اسی لیے قانون و ضوابط کے پابند اور غیر پیشہ وارانہ سرگرمیوں سے اجتناب بھی کرتے تھے لیکن ایک مسلمان جنرل ہو اور اس کے پاس ڈنڈے کی طاقت بھی ہو تو پھر بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک جنگل میں دو شیریا دوحکمران ہوں..؟
جنوری 1951ء میں جنرل ایوب خان ، پاکستان کے پہلے مسلمان آرمی چیف بنے توفیصل واوڈا کے بوٹ کی کہانی بھی شروع ہو گئی تھی۔
صرف دو ماہ بعد ہی پاکستان کے پہلے ہی وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک ناکام سازش ہوئی تھی اور چند ماہ بعد انھیں گولی کا نشانہ بنا کر ملک میں قیادت کا خلاء پیدا کر دیا گیا تھا۔ اسی دور میں اہل سیاست کی تذلیل بھی شروع ہو گئی تھی اورنہرو کی دھوتیوں کی طرح وزرائے اعظم تبدیل کیے گئے تھے۔
جنرل ایوب ہی نے آرمی چیف کے طور پر ستمبر 1953ء میں امریکہ سے فوجی معاہدے کیے تھے اور اسے سرزمین پاکستان پر فوجی اڈے دینے کے عوض بھاری فوجی اور اقتصادی امداد حاصل کی تھی۔
بنگالیوں کی عددی برتری کو ختم کرنے کے لیے ون یونٹ کی بدنام زمانہ تجویز بھی جنرل ایوب ہی کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھی اور اسی بنیاد پر پاکستان کا پہلا آئین بھی بنایا گیا تھا جس کا مشرقی پاکستان کی سبھی سیاسی پارٹیوں نے بائیکاٹ کیا تھا لیکن بوٹ کی طاقت ، وؤٹ کی طاقت پر حاوی ہو چکی تھی جو اکتوبر 1958ء میں عملی صورت میں سامنے بھی آگئی تھی۔
اس دوران ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی ، عدلیہ معطل اور میڈیا پابندتھا اور ایک مطلق العنانی کا دوردورہ تھا۔ ایک یکطرفہ پروپیگنڈہ تھا جو سرکاری میڈیا کے علاوہ فلمی گیتوں کی صورت میں بھی سامنے آیا تھا اور یہ فلمی ترانہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
حاصل مرادآبادی نامی ایک غیر معروف شاعر کا لکھا ہوا یہ اکلوتا فلمی گیت تھا جو اصل میں "جمہور کے ٹھیکیداروں" کے خلاف ایک چارج شیٹ تھی جو ہماری تاریخ اور ایک روایت بن چکی ہے۔ اس گیت کی دھن موسیقار این کے راٹھور جنھیں نتھو خان بھی کہا جاتا تھا ، نے بنائی تھی۔ اس موسیقار نے اس فلم کے علاوہ مزید چار فلموں کی موسیقی دی تھی لیکن کوئی ایک بھی سپر ہٹ گیت کمپوز نہیں کیا تھا۔
یہ گیت 1960ء میں ریکارڈ ہوا تھا اور یہ تاریخ مجھے اس لیے یاد ہے کہ 1985ء میں مسعودرانا نے لاہور میں اپنی گائیکی کی سلورجوبلی کی تقریب منائی تھی۔
اس گیت میں مسعودرانا کی آواز میں نوجوانی کا خمار تھا۔ ان کی تاریخ پیدائش 6 اگست 1941ء بیان کی جاتی ہے، اس طرح اس گیت کی ریکارڈنگ کے وقت عمر 19 سال کے لگ بھگ تھی جبکہ اس سال کی ان کی دوسری فلم بنجارن تک آواز انتہائی پختہ ہو چکی تھی۔
فلم انقلاب 27 اپریل 1962ء کو صرف کراچی میں ریلیز ہوئی تھی اور ناکام رہی تھی۔ اس فلم میں کل نو گیت تھے جن میں مسعودرانا کا ایک اور گیت بھی تھا جو ان کے جملہ گیتوں میں پچاس کے قریب ایسے گیتوں میں سے ایک ہے جو ابھی تک میری سماعت سے نہیں گزرے ۔
اس فلم کے چار گیت گلوکارہ خورشید بیگم نے گائے تھے جو ان کے فلمی کیرئر کا واحد موقع تھا۔ یہ گلوکارہ صرف ریڈیو سے متعلق تھیں ، جہاں ان کی جوڑی گلوکارہ نذیر بیگم کے ساتھ بڑی مشہور تھی جب ریڈیو پاکستان لاہور پر ان کے پنجابی لوک گیت گونجتے تھے۔ خورشید بیگم کےفلموں میں صرف ایک درجن کے قریب گیت تھے جن میں ایک مسعودرانا کے ساتھ بھی تھا جس کا ذکر آگے آئے گا۔
اس فلم میں ایک گلوکارہ شہربانو کانام بھی ملتا ہے جو یقیناََ ریڈیو ہی کی گلوکارہ ہونگی لیکن فلم میں ایک غیر معروف نام ہے۔
ایک گلوکارہ نسیمہ شاہین بھی تھیں جنھوں نے دودرجن کے قریب فلمی گیت گائے تھے جن میں متعدد گیت مسعودرانا کے ساتھ بھی تھے جن کا ذکر آگے آئے گا لیکن ان کے علاوہ اس فلم میں ایک اور گلوکار بھی تھے جو اس وقت تک فلمی گلوکار بننے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے اور وہ نام تھا شہنشاہ غزل خانصاحب مہدی حسن کا۔
فلم انقلاب کے ہدایتکار راشدی مرزا تھے اور یہ ان کی ایک اکلوتی کاوش تھی۔ اس فلم میں انھوں نے اداکاری بھی کی تھی ، اب یہ معلوم نہیں کہ یہ وہی صاحب ہیں جنھوں نے شکار (1956) ، جانثار (1961) اور دیوانہ (1964) میں اداکاری بھی کی تھی۔
فلم کے دو فلمساز تھے ، عشرت حسین کا نام صرف اسی فلم میں آتا ہے لیکن رفیق چوہدری کانام فلم پھر صبح ہو گی (1967) میں بھی آتا ہے جس میں انھوں نے رونالیلیٰ کے ساتھ ایک گیت بھی گایا تھا۔ اس فلم کی کہانی شمس لکھنوی نے لکھی تھی جن کا نام میڈم نورجہاں کی مشہورزمانہ فلم کوئل (1959) کے کہانی نویس کے طور پر بھی آتا ہے۔
فلم انقلاب کے ہیرو حبیب تھے جو اس وقت کے ایک مقبول ترین فلمی ہیرو تھے۔
فلم کی ہیروئین جمیلہ رزاق تھی جو صرف نو فلموں تک محدود رہی تھی۔ اس فلم کے بعد اس کی آخری فلم عشق پر زور نہیں (1964) ریلیز ہوئی تھی جو واحد کامیاب فلم تھی۔ جمیلہ نے معروف کرکٹر وقار حسن سے شادی کر کے فلمی دنیا کو خیر آباد کہہ دیا تھا۔
اس فلم میں سیکنڈ ہیروئین شمیم آراء تھی جس پر تفصیل سے بات ہو گی۔ فلم کے ولن کے طورپر اداکار سکندر کا نام ملتا ہے جو اس دور کی اردو فلموں کے معروف اداکار تھے۔ درازقد اداکار تھے اور مکالمے ادا کرنے کا ایک مخصوص انداز تھا۔
فلم میں کامیڈین کے طور پر فیضی کا نام ملتا ہے جو ایک کوتاہ قامت اداکار تھے اورساٹھ کے عشرہ کی بہت سی فلموں میں نظر آتے تھے۔ ان سب کے علاوہ ایک بہت بڑا نام ایم اسمٰعیل کا تھا جو پاکستان کے سب سے سنیئر ترین اداکار تھے۔ اس فلم میں پنا کا نام بھی ملتا ہے جو عام طور صرف رقص یا مجرے تک محدود رہتی تھیں۔
پاک میگزین" کے سب ڈومین کے طور پر "پاکستان فلم میگزین"، پاکستانی فلمی تاریخ، فلموں، فنکاروں اور فلمی گیتوں پر انٹرنیٹ کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی ویب سائٹ ہے جو 3 مئی 2000ء سے مسلسل اپ ڈیٹ ہورہی ہے۔
پاکستانی فلموں کے 75 سال …… فلمی ٹائم لائن …… اداکاروں کی ٹائم لائن …… گیتوں کی ٹائم لائن …… پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد …… پاکستان کی پہلی پنجابی فلم پھیرے …… پاکستان کی فلمی زبانیں …… تاریخی فلمیں …… لوک فلمیں …… عید کی فلمیں …… جوبلی فلمیں …… پاکستان کے فلم سٹوڈیوز …… سینما گھر …… فلمی ایوارڈز …… بھٹو اور پاکستانی فلمیں …… لاہور کی فلمی تاریخ …… پنجابی فلموں کی تاریخ …… برصغیر کی پہلی پنجابی فلم …… فنکاروں کی تقسیم ……
"پاک میگزین" پر گزشتہ پچیس برسوں میں مختلف موضوعات پر مستقل اہمیت کی حامل متعدد معلوماتی ویب سائٹس بنائی گئیں جو موبائل سکرین پر پڑھنا مشکل ہے لیکن انھیں موبائل ورژن پر منتقل کرنا بھی آسان نہیں، اس لیے انھیں ڈیسک ٹاپ ورژن کی صورت ہی میں محفوظ کیا گیا ہے۔
"پاک میگزین" کا آغاز 1999ء میں ہوا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارے میں اہم معلومات اور تاریخی حقائق کو آن لائن محفوظ کرنا ہے۔
یہ تاریخ ساز ویب سائٹ، ایک انفرادی کاوش ہے جو 2002ء سے mazhar.dk کی صورت میں مختلف موضوعات پر معلومات کا ایک گلدستہ ثابت ہوئی تھی۔
اس دوران، 2011ء میں میڈیا کے لیے akhbarat.com اور 2016ء میں فلم کے لیے pakfilms.net کی الگ الگ ویب سائٹس بھی بنائی گئیں لیکن 23 مارچ 2017ء کو انھیں موجودہ اور مستقل ڈومین pakmag.net میں ضم کیا گیا جس نے "پاک میگزین" کی شکل اختیار کر لی تھی۔
سالِ رواں یعنی 2024ء کا سال، "پاک میگزین" کی مسلسل آن لائن اشاعت کا 25واں سلور جوبلی سال ہے۔
PAK Magazine is an individual effort to compile and preserve the Pakistan history online.
All external links on this site are only for the informational and educational purposes and therefor, I am not responsible for the content of any external site.